Urdu Poetry By Razdan Raaz

شاعری

رازدان راز
شعری مجموعہ ہر لمحہ اور سے ماخوز
(اردو شاعری اردو غزل اردو نظم اردو قطعات )
 

رازدان صاحب مٹی کی خوشبو سے جڑے ہوئے ایک ایسے انسان ہیںجن کا دل محبت سے دھڑکتا بھی ہے اور درد کے آنسو بن کر چھلکتا بھی ہے، ان کا دل آبگینے کی طرح نازک اور شیشے کی طرح صاف ہے، اک ذرا سی چوٹ بھی جس کے لیے گراں گزر سکتی ہے، انہیں دیکھ کر اور ان سے مل کر میرے ذہن میں میر انیس کا مصرعہ گونج اٹھتا ہے ”انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو“ اپنے سینے میں نرم و نازک دل رکھنے والا جذباتی انسان جب شاعری کے میدان میں قدم رکھتاہے تو اس کے شعر دل سے نکل کر دل کو چھونے والا اثر رکھتے ہیں ۔ رازدان راز صاحب  کے  اب  تک  دو  شعری مجموعے   ’ہر لمحہ اور‘ اور ’دل سے اٹھا دھواں‘ منظر عام پر آچکے ہیں۔دونوں ہی شعری مجموعے ممبئی سے اردو اور ہندی میں الگ الگ شائع ہوئے ہیں۔

 

 

غزل

 

جتنا سہتا ہوں زمانے کی جفا ہر لمحہ اور

اتنا آتا ہے سمجھ مجھ کو خدا ہر لمحہ اور

ہو رہے ہیں میرے دل کے جتنے ٹکڑے باربار
اس سے ہوتا جا رہا ہوں آشنا ہر لمحہ اور

کر رہا تھا میں توقع اس سے رحمت کی مگر
وہ بڑھاتا ہی گیا میری سزا ہر لمحہ اور

جیسے جیسے دور ہوتا جا رہا ہوں خود سے اب
تیز آتی جا رہی ہے اک صدا ہر لمحہ اور

زندگی تو ابتداءسے موت کے چنگل میں ہے
کستا جاتا ہے شکنجہ وقت کا ہر لمحہ اور

اب تو اپنی خواہشوں کے سلسلے بھی ختم ہیں
راز ہوتا جا رہا ہوں بے صدا ہر لمحہ اور


غزل


اس زمانے کے فریبوں سے بچا کوئی نہ تھا
منزلیں تھیں سامنے پر راستہ کوئی نہ تھا

زندگی میں جو ملے اچھے لگے ‘ اپنے لگے
میں تو سب کا ہو گیا لیکن میرا کوئی نہ تھا

کس قدر بچ کر چلا میں کتنا آہستہ چلا
مڑ کے جب دیکھا تو اپنا نقشِ پا کوئی نہ تھا

غم سے سب ہارے ہوئے تھے زندگی کی دوڑ میں
سورما بھی تھے مگر جیتا ہوا کوئی نہ تھا

رات کچھ ایسا لگا جیسے سحر سی ہو گئی
اک دیا بس جل رہا تھا بولتا کوئی نہ تھا

راز تھے احباب اپنے دوست اور محبوب بھی
جو نبھاتا ایک رشتہ درد کا ‘ کوئی نہ تھا


غزل


جس کا جی چاہے فقیروں کی دعا لے جائے
کل ہمیں جانے کہاں وقت اٹھا لے جائے

خدمت خلق سے ہستی کو فروزاں کر لے
کیا پتہ کون سی ظلمت میں قضا لے جائے

اس لیے کوئی جہاں سے نہ گیا کچھ لے کر
کیا ہے دنیا میں ‘ کوئی ساتھ بھی کیا لے جائے

بانٹ دے سب میں یہ خوشیاں جو ملی ہیں تجھ کو
اس سے پہلے کہ کوئی ان کو چرا لے جائے

تو جسے ڈھونڈ رہا ہے وہ تیرے اندر ہے
خود سے ملوانے تجھے کون بھلا لے جائے

آندھیاں تو نہ ہلا پائیں تجھے راز مگر
اب اُڑا کر نہ کہیں بادِ صبا لے جائے


غزل


آج محفل اداس سی کیوں ہے
مئے ہے ‘ ساقی ہے پیاس سی کیوں ہے

کس سے پوچھیں کہ آج یہ دنیا
اس قدر بدحواس سی کیوں ہے

وہ رقیبوں کا ہو گیا پھر بھی
بے سبب ایک آس سی کیوں ہے

ذہن سے دور کی ہے یاد اس کی
پھر بھی وہ آس پاس سی کیوں ہے

کیا ہے رشتہ غموں سے خوشیوں کا
ہر خوشی غم شناس سی کیوں ہے

راز ہنس تو رہے ہو محفل میں
پھر یہ چہرے پہ یاس سی کیوں ہے

 


غزل
ہوا یہ کہ جیسے خدا سے ملا تھا
میں کل رات شاید بہت پی گیا تھا

میں جب پی رہا تھا پئے جا رہا تھا
وہ تھا کون جو مجھ کو سمجھا رہا تھا

جو رو رو کے پاگل ہنسے جا رہا تھا
وہ میرا اگر دل نہیں تھا تو کیا تھا

نہ دل کو خبر تھی نہ مجھ کو پتہ تھا
محبت کی تقدیر میں کیا لکھا تھا

وفاو ں کی منزل میرے سامنے تھی
بہت ٹیڑھا میڑھا مگر راستہ تھا

بنا ڈالا شاعر تجھے راز کس نے
بتا دے ہمیں حادثہ کیا ہوا تھا

 

غزل
جہاں کی بھیڑ میں جو بھی ملا ‘ ملا تنہا
سفر میں ساتھ تھے سب پر ہر ایک تھا تنہا

ستارے لاکھ چلے اس کے ساتھ ساتھ مگر
سحر کے ہوتے ہی پھر آسماں ہوا تنہا

یہ ایک قطرے کی کوشش تھی بس سمندر میں
وہ بادلوں میں اُڑا تو ‘ مگر گرا تنہا

غموں نے مجھ کو بنا ہی دیا تیرے قابل
خوشی ملی تو میں کترا کے چل دیا تنہا

سبھی تھے اپنے جو بیٹھے تھے گھیر کر مجھ کو
کوئی نہ ساتھ ہوا اٹھ کے جب چلا تنہا

جنونِ راز کی شدت تھی دیکھنے جیسی
وہ ایک آئینہ لے کر بہت ہنسا تنہا

 

غزل
وقت کے ساتھ بدلتے ہیں ہمارے رشتے
بس ضرورت کے زمانے میں ہیں سارے رشتے

کوئی تحفہ بھی ضروری ہے چلانے کو انہیں
چل نہیں پاتے ہیں رشتوں کے سہارے رشتے

ٹوٹ بھی جائیں مگر ٹوٹ کے جُڑ جاتے ہیں
جیسے دریا سے نبھاتے ہیں کنارے رشتے

خون کے ‘ دل کے ‘ وفا کے یا کوئی اور سہی
جب بھی بگڑے ہیں تو پھر کس نے سنوارے رشتے

ایسے رشتے کہ جو بے نام ہیں بے منزل ہیں
یہی بس ساتھ نبھاتے ہیں بے چارے رشتے

جو بھی ملتا ہے ‘ نیا رشتہ بنا لیتے ہو
راز دُکھ دیتے ہیں پھر تم کو تمہارے رشتے


غزل
درد ہو گا تو کیا برا ہو گا
عشق کا قرض کچھ ادا ہو گا

خون سے جو خطوط لکھتا تھا
ہاں ‘ وہی بے وفا بنا ہو گا

گر عنایت کسی نے کی تجھ پر
اس میں اس کا ہی کچھ بھلا ہو گا

پھر یقینا کوئی جفا ہو گی
اس کا وعدہ اگر وفا ہو گا

آج لگتا ہے سب ہمارے ہیں
کل ہمارا کسے پتہ ہو گا

درد بنیادِ زندگی ہے راز
اس پہ کیسے محل کھڑا ہو گا

 


غزل


من کی چنگاری سے دل کو ہم ہر شام جلاتے ہیں
پھر ہم دل کی راکھ پہ غم کی چادر لے سو جاتے ہیں

سینے سے جب یاد اُمڈ کر آنکھوں تک آجاتی ہے
ذہن کو تھوڑا بھٹکا کر ہم ان کی یاد چھپاتے ہیں

دنیا کی اس وسعت میں اک مٹھی راکھ کی وقعت کیا
وقت کے کچھ جھونکے آتے ہیں ‘ راکھ اُڑا لے جاتے ہیں

ہاتھ کی یہ ریکھائیں ہیں یا زنجیریں ہیں پیروں کی
راہ دکھائی دیتی ہے پر پاو ں نہیں اٹھ پاتے ہیں

راز سہم جاتے ہیں ہم تو ‘ جب کوئی تعریف کرے
کالے سے جو دل پر تِل ہیں نظر کسے وہ آتے ہیں


غزل


عرصہ ہوا ہے اب وہ بلاتا نہیں ہمیں
اتنا خفا ہوا کہ ستاتا نہیں ہمیں

اس سے ملے بغیر بھی بے چین تھے مگر
اب چین اس سے مل کے بھی آتا نہیں ہمیں

ہم غم پہ ہنس رہے ہیں اسے ہم سے کیا ملا
کیوں پھر بھی چھوڑ کر کہیں جاتا نہیں ہمیں

پیتے ہیں اس کی یاد میں تاریکیوں کے جام
اس میکدے سے کوئی اٹھاتا نہیں ہمیں

ہم زندگی کی کون سی منزل پہ آ گئے
کوئی سکون راس ہی آتا نہیں ہمیں

کیا راز اپنے دل میں بھی بارود تو نہیں
اب کیوں خدا بھی خود سے ملاتا نہیں ہمیں

 


غزل


مجبوریوں میں بک گئے کچھ مفلسوں کے تن
ان کو ہوس نے لوٹ لیا ڈال کر کفن

مجبور کرنے والوں پہ کوئی سزا نہ تھی
مجبورِ حال نے ہی کیا جرم بھی سہن

بچوں کی بھوک جن کو جگائے تمام رات
آنکھوں میں ایسی ماو ں کے کیسے نہ ہو تھکن

کی جس نے خالی پیٹ مشقت تمام دن
ماتھے پہ اس کے روشنی بن جاتی ہے شکن

چلتے رہے تو موت بچاتی رہی نظر
جب تھک گئے تو لُوٹ گئی ہم کو راہزن

یہ رونقیں ‘ یہ شوخیاں ‘ رنگینیاں ‘ ہنسی
پردے میں ان کے راز چھپایا اداس من

 

غزل


زیست کو کیا کہہ کر سمجھائیں کیوں جینے کی چاہ نہیں
دو راہے ہیں ‘ چوراہے ہیں لیکن اپنی راہ نہیں

یادوں کی رنگیں تصویریں اور اندھیرے آنکھوں میں
کھوئے خواب جہاں ڈھونڈیں ہم ایسی کوئی پناہ نہیں

چاند کو دیکھیں تو کرنوں کے تیر نظر میں چبھتے ہیں
جس پونم کی رات نہ روئے ایسا کوئی ماہ نہیں

لاکھوں کو دے لاکھوں غم اور پھر بھی ہو پوجا اس کی
لگ جائے اس پتھر کو جو ایسی کوئی آہ نہیں؟

راز مزہ جب تک لے سکتے ہو تم لے لو دنیا میں
صبح کا بھولا شام کو لوٹے پھر وہ تو گمراہ نہیں


غزل


کچھ غم کے سوا عشق کا حاصل نہیں ملتا
جو دل نہیں بدلے وہ کہیں دل نہیں ملتا

غم ہے وہ کہاں جس پہ کوئی جان لُٹا دے
غم اب کوئی مرنے کے بھی قابل نہیں ملتا

سب کی یہی کوشش ہے کہ ماضی کو بھلا دیں
غم سہنے کا احساس بھی کامل نہیں ملتا

بھر دے کوئی جھولی کسی انسان کے دل کی
ایسا بھی یہاں کوئی سخی دل نہیں ملتا

طاقت جنھیں مل جائے ترستے ہیں سکوں کو
جیسے کسی طوفان کو ساحل نہیں ملتا

کیا راز کے دل میں ہے نہیں ذہن کو معلوم
وہ خود سے کبھی ان کے مقابل نہیں ملتا


غزل


تجھے ڈر ہے کوئی تو صاف کہہ ‘ مجھے وعدہ کر کے دغانہ دے
دے مجھے جو زہر بتا کے دے ‘ تو ملا کے زہر دوا نہ دے

میری زندگی کی ہے راکھ یہ ‘ ابھی گرم ہے اسے چھو نہیں
تو میرے نہ اتنا قریب آ ‘ یہ تپش تجھے بھی جلا نہ دے

میں تو پھول تھا کہ جو کھل اٹھے ‘ کوئی ٹکڑا ابر کا دیکھ کر
ذرا چشمِ نم سے تو دیکھ لے ‘ مجھے تو برستی گھٹا نہ دے

میری روح ‘ میرے ضمیر و دل ‘ میرے ہم خیال ہیں سب کے سب
نہیں میرے ذہن میں کشمکش ‘ تو بھی چھپ کے مجھ کو صدا نہ دے

مجھے پوچھتا ہے میں کون ہوں ‘ کہاں راز کیسے ملا تھا ‘ کب
میرے دوست مجھ کو نہ آزما ‘ میری سادگی کو سزا نہ دے


غزل


زخموں پہ میرے اب نہ لگاو  کوئی مرحم
نکلے گا تو نشتر سے ہی نکلے گا میرا غم

کچھ اتنے ہوئے خشک ملاقات کے لمحے
پت جھڑ سا ہی لگتا ہے بہاروں کا بھی موسم

اب ذہن کو آرام نہ اس دل کو سکوں ہے
مل جائے مجھے چین نکل جائے اگر دم

میں نے دیا سب کچھ جسے تا عمر وہی شخص
جب دے نہ سکا کچھ تو ہوا مجھ سے ہی برہم

ہم لوگ خدا بننے کی کوشش میں رہے راز
اب تک تو نہ بن پائے ہیں انساں بھی مگر ہم


غزل

تو بلائے گا سنور جائیں گے ہم
کون کہتا ہے کہ مر جائیں گے ہم
زندگی بھر ہم اندھیروں میں جِئے
روشنی میں اب بکھر جائیں گے ہم
دوستی کے سب نتیجے مل گئے
پائیں گے دشمن جدھر جائیں گے ہم
جو ستاتے تھے قفس میں رات دن
رو رہے ہیں اب کہ گھر جائیں گے ہم
کچھ نہ دے پائے تو یہ جاں ہی سہی
تیری خاطر کچھ تو کر جائیں گے ہم
مت پلا ساقی ہمیں آبِ حیات
مر نہ پائے تو کدھر جائیں گے ہم
عمر بھر یہ وقت گزرا ہے پر اب
وقت ٹھہرے گا گزر جائیں گے ہم
زندگی کے رنگ تو پھیکے تھے راز
موت میں کچھ رنگ بھر جائیں گے ہم


غزل

دل کو کیا کہہ کر سمجھائیں دشمن اپنا یار ہو جب
درد سے کیسے جان بچائیں ظالم سے ہی پیار ہو جب

گھنٹوں اس کے سامنے بیٹھا ‘ سمجھ نہیں پایا کچھ بھی
اس کے من میں کیسے جھانکیں پلکوں کی دیوار ہو جب

اپنے ہیں وہ جو راہوں میں گھات لگائے بیٹھے ہیں
کب تک ‘ کیسے ‘ کون بچے پھر ‘ قدم قدم پر وار ہو جب

کیوں کر یہ دل ڈوب نہ جائے جب ایسے حالات بنیں
اشک کا دریا ‘ درد کی کشتی اور غم ہی پتوار ہو جب

راز کہیں مل بھی جائے تو کھویا کھویا لگتا ہے
دنیا سے وہ خاک نبھائے خود سے ہی بیزار ہو جب


غزل

زندگی کی ریت پر اک وقت کا گھر بن گیا
اور اک سپنوں کا مندر اس کے اندر بن گیا

فصلِ گل بھی تھی ‘ صبا بھی ‘ پر فضا مایوس تھی
آگیا اک شخص تو جنّت کا منظر بن گیا

راہ میں جب تک پڑا تھا دھول کا ذرّہ تھا وہ
کھا کے جب ٹھوکر اُڑا تو اک بونڈر بن گیا

آنکھ سے چھلکا وہ جب تک ایک بس قطرہ ہی تھا
ضبطِ دل کی تہہ میں آکر وہ سمندر بن گیا

یوں تو پیدائش سے انساں کوئی بھی ظالم نہیں
ظلم اکثر سہتے سہتے وہ ستم گر بن گیا

عشق میں بگڑی جو قسمت پھر نہیں بنتی کبھی
راز شاعر بن کے بگڑا اور بگڑ کر بن گیا


غزل


مدتوں سوچا کیا کہنے کو کچھ
پھر بھی مجھ سے کیا بنا کہنے کو کچھ
جس کے منہ میں ہی زباں ہوتی نہ تھی
آج وہ بھی آ گیا کہنے کو کچھ
ضبط نے مجھ کو نہ کچھ کہنے دیا
درد تھا کب سے اٹھا کہنے کو کچھ
جو بھی آیا منہ میں وہ تم کہہ گئے
تم نے اب چھوڑا ہے کیا کہنے کو کچھ
تم نے جب ترکِ تعلق کر لیا
کیوں بچاتے ہو بھلا کہنے کو کچھ
وہ ملا لیکن میں کیا کہتا اسے
اس کے آگے تھا ہی کیا کہنے کو کچھ
کب تو گزرے گا ادھر سے اے خدا
میں ہوں صدیوں سے کھڑا کہنے کو کچھ
راز اب کیا پوچھتے ہو موت سے
زندگی نے کیا دیا کہنے کو کچھ


غزل

سب اپنا ڈھونڈ رہے ہیں کسے ملا اپنا
جسے سنوارا تھا وہ بھی کہاں رہا اپنا

کہاں ضروری ہے دنیا میں ہم خیال ہوں سب
مزاج اس لیے سب سے رہا جدا اپنا

وہ بے گناہ جو کل مر گیا فسادوں میں
نہ تھا ہمارا مگر وہ کسی کا تھا اپنا

جو میرے حال پہ رویا وہ ایک دشمن تھا
جو میرا دوست تھا منہ پھیر کر چلا اپنا

خدا کی طرح تھیں بے لوث چاہتیں اس کی
کبھی لگا وہ پرایا کبھی لگا ‘ اپنا


غزل

جو نہ ڈوبا کسی طوفان میں وہ دل تھا میرا
دل جہاں ڈوب گیا بس وہی ساحل تھا میرا

یہ بھی اچھا ہوا اس وقت ہی چمکی بجلی
کچھ تسلی تو ہوئی دوست ہی قاتل تھا میرا

آج محفل میں کسی کو بھی نشہ ہی نہ ہوا
مئے میں لگتا ہے کہ خوں ہی نہیں شامل تھا میرا

دب گئی سکّوں کی جھنکار میں پایل کی چھنک
جب وہ ٹوٹا تو پتہ ہی نہ لگا دل تھا میرا

جس کے ہر لفظ میں تھا ذکر مسلسل تیرا
ایک افسانہ وہی سننے کے قابل تھا میرا

زندگی ایک تماشے کی طرح گزری ہے
کیا کہوں راز میں کیا زیست کا حاصل تھا میرا


غزل


یہ کیسی بھوک ہے ہنس کر بشر ٹھوکر بھی کھاتا ہے
وہ جذبہ کون سا ہے جس میں غم بھی مسکراتا ہے
لکھی ہے کیسے ہر پتّے کی قسمت کس نے پیڑوں پر
جو پتّہ سوکھ جاتا ہے وہ خود ہی گر بھی جاتا ہے
جہاں میں اپنی ہستی صرف اک ذرّے کے جیسی ہے
یہ کس کا نور ہے جو میرے اندر جگمگاتا ہے
کہاں سے بیج بن جاتا ہے کیسے فصل پکتی ہے
ملن کیسا یہ ہوتا ہے جو دنیا کو چلاتا ہے
سمندر کروٹیں لیتا ہے اور موسم بدلتے ہیں
بدلتا کچھ نہیں لیکن جو جاتا ہے پھر آتا ہے
کوئی چھوٹا سا پودہ جب بڑا سا پیڑ بن جائے
تو کیوں چھوٹا سا پودہ اس کے نیچے سوکھ جاتا ہے
کروڑوں لوگ ہیں دنیا میں پر اپنا نہیں کوئی
یہ باتیں راز لیکن ‘ کیوں زمانے کو بتاتا ہے


غزل

سب چلے آو بزمِ رنداں ہے
جھومو  بَل کھاو  بزمِ رنداں ہے
سب یہاں دوست یار بیٹھے ہیں
دل کو بہلاو بزمِ رنداں ہے
کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہے یہاں
سب سمجھ جاو بزمِ رنداں ہے
کل زمانے سے جا کے ٹکرانا
جام ٹکراو  بزمِ رنداں ہے
تم کو گھر میں سکوں نہیں ملتا؟
تم بھی آ جاو  ‘ بزمِ رنداں ہے
اپنے اپنے الگ الگ گانے
مل کے سب گاو  بزمِ رنداں ہے
راز جانے دو  تھوک دو غصہ
اٹھ کے مت جاو  بزمِ رنداں ہے


غزل

جان بوجھ کر لوگ یہاں جھوٹی باتیں کر جاتے ہیں
سچ تو یہ ہے ‘ کڑوا ہے سچ ‘ کہنے سے ڈر جاتے ہیں

ہم نے ضمیروں کی لاشوں کو دفناتے بھی دیکھا ہے
تن زندہ رکھنے کی خاطر من کیسے مر جاتے ہیں

بھیک مانگتے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو کیسے دیکھیں
جن کے لیے گھر اک سپنا ہے دن بھر در در جاتے ہیں

اشک غریبوں کے ہیں جن سے میل جہاں کی دھلتی ہے
کس کی تجوری ہے جس میں گیلے موتی بھر جاتے ہیں

راز یقیں کرنا پڑتا ہے قسمت کی بھی باتوں کا
مر جاتے ہیں بھوک سے انساں اور گدھے چر جاتے ہیں


غزل

سب نے ڈھونڈا ہے مگر اس کا پتہ پایا نہیں
ہر جگہ اس کا ہے گھر پر کوئی جا پایا نہیں

سینکڑوں سوچوں میں بھٹکی نیند میری عمر بھر
آ گئی جب نیند تو کوئی جگا پایا نہیں

درد کیا ہوتا ہے کوئی پوچھتا تھا باربار
درد جس کے دل میں تھا وہ کچھ بتا پایا نہیں

ہو تو سکتی ہے خدا سے دیر کچھ انصاف میں
کون ہے لیکن جو کرنی کی سزا پایا نہیں

جس کو دیکھو بات کرتا ہے نفعِ نقصان کی
راز اس بابت میں تو کوئی جدا پایا نہیں
 

 


غزل


ان کے ہم ہو گئے ہیں دیوانے
اب تو آگے کی بس خدا جانے

رات کٹتی ہے سوچ کر جن کو
لوٹ کر اب وہ دن نہیں آنے

شمع ‘ پھر کس لیے جِئے گی تُو
گر جلا دے گی سارے پروانے

جب بھی مرنے کی آرزو کی ہے
زندگی چل پڑی ہے سمجھانے

بے وفا ‘ تجھ کو بھول جائیں مگر
کیا کریں دل اگر نہیں مانے

راز اپنا بنا کے دنیا کو
غم سے کیسے رہو گے بیگانے


غزل
ساتھ کب تک نبھائے تنہائی
وہ نہ آئے ‘ نہ موت ہی آئی

عشق اک روز مہربان ہوا
مل گئی عمر بھر کی رسوائی

بے وفائی جو کر رہے تھے وہی
آج کہتے ہیں ہم کو ہرجائی

ہم نے کوشش تو کی بہت لیکن
وہ جو تھی بات پھر نہ بن پائی

اب تو خود سے بھی مل نہیں پاتے
جب سے ان سے ہوئی شناسائی

آج وہ بھی تو بن گئے دشمن
راز بنتے تھے جو سگے بھائی


غزل
دل کی تباہیوں میں تو کوئی کسر نہیں
غم ہم سفر ہے اور کوئی ہم سفر نہیں

ان کے بغیر ہم نہیں چلتے تھے دو قدم
اب کوئی ساتھ ہے کہ نہیں کچھ خبر نہیں

کل شام جب وہ جانے لگے تب لگا پتہ
ایسی بھی ایک شام ہے جس کی سحر نہیں

وہ ڈر رہے ہیں آج محبت کے نام سے
کل تک تھا جن کے دل میں کسی کا بھی ڈر نہیں

دیتے تو ہیں دعائیں تمہیں بھی خوشی ملے
پر راز کی دعاو ں میں اب وہ اثر نہیں



غزل

میرا وہ ہو کے بھی مجھ سے بہت جدا نکلا
دلوں میں رہ کے بھی میلوں کا فاصلہ نکلا

میں چھوٹی چھوٹی سی خوشیاں بٹور کر خوش تھا
مگر نصیب کا دامن پھٹا ہوا نکلا

میں اس کے پنجرے میں رہ کر بھی خوش رہا لیکن
اُڑا ذرا سا جو ایک دن تو پر کٹا نکلا

جو چھپ کے رات میں آیا تھا قتل کرنے مجھے
نظر پڑی تو وہ ایک دوست ہی میرا نکلا

کسی نے راز دیا میرے دشمنوں کا پتہ
پڑھا تو اپنے ہی گھر والوں کا پتہ نکلا


غزل

ہم آج عشق و وفا کے صلوں کی بات کریں
اٹھاو  جام کہ ٹوٹے دلوں کی بات کریں

یہ عشق ہوتا ہے طوفان بحرِ زیست میں دوست
چلو بھنور میں رہیں ساحلوں کی بات کریں

تمام رشتے یہاں پیروں کی زنجیریں ہیں
یہ توڑ پائیں تو ہم قافلوں کی بات کریں

وفا کی راہ میں ہیں درد و رنج و غم کے ہجوم
چھٹے یہ بھیڑ تو ہم منزلوں کی بات کریں

ہے ایسی رات یہ جس کی سحر بھی ہو کہ نہ ہو
گلے ملے تھے جو اُن قاتلوں کی بات کریں

ملا تھا جو بھی وہ زخموں پہ زخم دے کے گیا
تو راز کون سے پھر سلسلوں کی بات کریں؟

 

غزل


مجھے اس جہان سے کیا ملا ‘ میں نے اس جہان کو کیا دیا
جو ملا ہے زہر یہ زیست سے ‘ وہی میں نے سب کو پلا دیا
مجھے دوست اتنے ملے یہاں ‘ کہ میں خود سے خود ہی بچھڑ گیا
مجھے اپنے رنگ میں ڈھال کر ‘ میرا رنگ سب نے مٹا دیا
مجھے منزلوں کی تلاش تھی ‘ مجھے ایک دن سبھی مل گئیں
پڑیں ایسی پیچھے وہ سب میرے ‘ کہ قدم قدم پہ ستا دیا
کوئی اتنا آیا قریب کہ ‘ مجھے اس کا چہرہ نہ دکھ سکا
میرا دل چُرا کے وہ لے گیا ‘ کہیں جا کے اس نے جلا دیا
مجھے جب تلک وہ ملا نہ تھا ‘ مجھے درد و غم کا پتہ نہ تھا
چلا ایسا عشق کا سلسلہ ‘ مجھے بار بار رلا دیا
میری آرزوو ں کی بھیڑ میں ‘ میرے اپنے جانے کہاں گئے
میں اکیلا راہ میں رہ گیا ‘ تو خدا نے خود سے ملا دیا
مجھے راز ایسا گماں ہوا ‘ میرے پیچھے کوئی کھڑا کھڑا
بہی کھاتہ میری حیات کا ‘ لکھا اس نے سارا لیا دیا


غزل

دل کبھی بے وفا نہیں ہوتا
وقت کا کچھ پتہ نہیں ہوتا

اپنی اپنی ہے سب کی مجبوری
دل کسی کا برا نہیں ہوتا

اپنا اپنا خیال ہے ورنہ
کچھ برا یا بھلا نہیں ہوتا

غم ہی اک دوست ہے ہمیشہ کا
زندگی بھر جدا نہیں ہوتا

بٹ کے ہم لوگ رہ گئے ورنہ
اپنی دنیا میں کیا نہیں ہوتا

راز مر مر کے لوگ جیتے ہیں
کیسے مانوں خدا نہیں ہوتا


غزل


باتوں باتوں میں فسانوں سے فسانے نکلے
یار مل بیٹھے تو یادوں کے خزانے نکلے

خود بھٹکتے تھے جو ہرجائی زمانے بھر کے
آج وہ رسمِ وفا ہم کو سکھانے نکلے

چوٹ کھائی تو زمانے کو برا کیوں کہنا
چوٹ کھائی ہے جہاں اپنے ٹھکانے نکلے

جب ہوئی دل میں کشش ایک نئی جنت کی
پہلی جنت سے نکلنے کے بہانے نکلے

آج میخانے میں ساقی تھا ‘ نہ غزلوں کی مہک
دل کے کچھ ٹوٹے ہوئے جام پرانے نکلے

راز تو یاد نہ آیا کبھی ایسا بھی نہ تھا
بات جب غم کی چھڑی تیرے فسانے نکلے

 

غزل


تیرا ہی غم میری اب آبرو ہے
اِنہیں زخموں سے اب دل سرخرو ہے

تیرے غم پاس تو رہنے دے میرے
میرا ان سے جہانِ رنگ و بو ہے

چھپائے ہیں اندھیرے جب سے دل میں
اُجالا ہی اُجالا چار سو ہے

مجھے سب سے محبت ہے یہ سچ ہے
مگر دل میں بسا بس تو ہی تو ہے

وہ مل سکتا نہیں اب عمر بھر جو
اسی کی مجھ کو بھی کیوں جستجو ہے

سمجھتا کیوں ہے سب کو راز اپنا
دکھوں کی جڑ تو یہ تیری ہی خو ہے


غزل


اب اگر کوئی بھی خوشی ہو گی
اس کی یادوں سے ہی جُڑی ہو گی

قتل کر کے گیا ‘ پتہ نہ لگا
کیا کرامات اس نے کی ہو گی

نامہ بر سے خفا ہوا ہو گا
میری چٹھی بھی پھاڑ دی ہو گی

اٹھ کے راتوں کو بیٹھ جاتا ہوں
کہیں خوابوں میں کچھ کمی ہو گی

اب بھی رک رک کے اٹھ رہا ہے دھواں
آگ شاید نہیں بجھی ہو گی

وہ جو رو جائے میری میّت پر
راز کو مر کے بھی خوشی ہو گی


 

غزل


یہ چاند اور ستارے کہاں سے آئے ہیں
خدا نہیں تو یہ سارے کہاں سے آئے ہیں

یہ رات بھر کے ہیں مہمان بس خلاوں کے
یہ ظلمتوں میں بے چارے کہاں سے آئے ہیں

جھپکتی پلکوں سے لگتا ہے تھک گئے ہیں بہت
یہ کتنی صدیوں کے مارے کہاں سے آئے ہیں

بڑے سکون سے ہم ڈوب جانے والے تھے
امید کے یہ کنارے کہاں سے آئے ہیں

سفید بال ہوئے جھریاں پڑیں رخ پر
بتا یہ راز اشارے کہاں سے آئے ہیں


غزل

جہاں میں کاٹ دی ہم نے تو زندگی ایسے
بغیر جرم سزا کوئی کاٹ دی جیسے

تلاش ہم کو تھی جس دوست کی وہی نہ ملا
ملے ہیں لوگ ہمیں تو یہاں بہت ویسے

نہیں ہے عشق کی دولت سے بڑھ کے کچھ لیکن
سنبھالنے کو یہ دولت بھی چاہئیں پیسے

ہجومِ غم تھا یہاں کیوں بلا لیا اس کو
خوشی ہے کونے میں سہمی ہوئی کھڑی جیسے

ابھی ابھی تو کہا تم نے تھک گئے ہو بہت
تو اٹھ کے چل دیئے تم راز یک بہ یک کیسے


غزل

وہ جو شخص ہم کو عزیز تھا اسے کیا ہوا وہ کہاں گیا
اے خدا ذرا سا تو کچھ بتا اسے کیا ہوا وہ کہاں گیا
اسے دیکھ پاو ں میں اک نظر ‘ محض اک نظر ‘ فقط اک نظر
ہو وہاں کا کوئی تو راستہ ‘ اسے کیا ہوا وہ کہاں گیا
وہ جو عمر بھر میرے ساتھ تھا ‘ میری روز جس سے تھی گفتگو
مجھے ایک بار تو دے صدا ‘ اسے کیا ہوا وہ کہاں گیا
وہ گیا ہے جس بھی جہان میں ‘ وہ نہیں خدا کا جہان کیا
کیوں ہے چپ وہ کیوں نہیں بولتا ‘ اسے کیا ہوا وہ کہاں گیا
وہ گیا ہے کون سی راہ سے ‘ کہ نہیں ہے آنے کا راستہ
جو گیا تو کیوں نہیں آ سکا ‘ اسے کیا ہوا وہ کہاں گیا
جو چلا گیا سو چلا گیا ‘ وہ جو رہ گیا ہے وہ کیا کرے
وہ تو جب بھی دیکھو ہے سوچتا ‘ اسے کیا ہوا وہ کہاں گیا
بڑی بے ادب ہے یہ موت بھی کہ بِنا بتائے ہی آئے ہے
جو بھی اس کے ساتھ چلا گیا ‘ اسے کیا ہوا وہ کہاں گیا


غزل

کون گاوں سے آئے ہیں ہم ‘ گاوں کون سے جانا ہے
بھٹک رہے ہیں ‘ پتہ نہیں کچھ ‘ ہر رستہ انجانا ہے

چھوڑ کے آئے دودھ کی ندیاں ‘ چلے تھے ہم جس گاو ں سے
اب تو شہروں میں رہنا ہے ‘ چھین جھپٹ کر کھانا ہے

امیدوں کے تیر چلائے خواہشات کے جنگل میں
کوئی نہ تیر لگا پر مانیں کیسے غلط نشانہ ہے

دوست یہاں دشمن جیسے ہیں ‘ پیار میں بھی مکاّری ہے
ان لوگوں سے جھگڑا کیسا ‘ ان کا ساتھ نبھانا ہے

آنکھ موند کر بیٹھ گئے ہم ‘ گیان دھیان کی باتوں میں
سوچ کہیں تھی ‘ دھیان کہیں تھا ‘ کس کو کیا سمجھانا ہے

چلئے راز اکیلے چلئے ساتھ نہ کوئی جائے گا
جَون گاو ں اب تم جاو  گے ‘ ساتھ بھی کس کو آنا ہے


غزل


آج جنت کے ڈھونڈتا ہوں نشاں
کل تلک تو میرا یہیں تھا مکاں

ایک دن تم جہاں ملے تھے مجھے
کب سے بیٹھا میں دیکھتا ہوں وہاں

آگ دل کی بجھی نہ اشکوں سے
میری سانسیں ہیں اب دھواں ہی دھواں

سہمے دیکھا جو اس کو محشر میں
دیئے اپنے خلاف میں نے بیاں

راز عرصے سے ایک تھی خواہش
میری غزلیں ہوں اور اس کی زباں


غزل

یہ دردِ دل ‘ یہ غمِ عشق کا گلہ کیا ہے
یہ غم شکستِ انا کے سوا بتا کیا ہے

وہ خوش ہوا ہے اگر تجھ سے بے وفا ہو کر
تو کیوں اداس ہے تُو ‘ یہ تیری وفا کیا ہے

خوشی تلاش نہ کر دوست ‘ اس زمانے میں
جو چیز ہی نہیں دنیا میں ڈھونڈتا کیا ہے

سزا جو ملنی ہے پچھلے جنم کے کرموں کی
تو اس جنم میں بھلا اچھا کیا ‘ برا کیا ہے

فضول روتا ہے تسکین کے لیے ناداں
بتا کہ رونے سے اب تک تجھے ملا کیا ہے

اگی ہے گھاس اَنا کی زمینِ فطرت پر
شجر ہے پیار کا گر راز تو اَنا کیا ہے


غزل


عادتاً روز بھرے زخم سیا کرتا ہوں
میں بھُلا کر بھی اسے یاد کِیا کرتا ہوں
آزماتا ہوں ‘ مرا ہوں کہ ابھی زندہ ہوں
خود کو رہ رہ کے میں آواز دِیا کرتا ہوں
میں ہوں اب ایک مجسم تیری یادوں کا چراغ
اپنے ہی خون سے روشن جو کِیا کرتا ہوں
اب سحر سے ہی وہ اک آگ لگا دیتی ہے
غم کے پیالوں سے جو ہر شام پِیا کرتا ہوں
موت مشکل نہیں اور زندگی آسان نہیں
روز مرتا ہوں میں اور روز جِیا کرتا ہوں
ٹوٹ جائیں تو بڑھے اور بھی شدت جن کی
ایسے رشتوں کو میں انجام دِیا کرتا ہوں
درد و غم ‘ عشق و وفا ‘ گردشِ دوراں کے لیے
راز دل سے میں بہت کام لِیا کرتا ہوں


غزل

مر چکا ہوں میں ‘ گلے سے نہ لگائے کوئی
اب تو جینے کا نہ احساس دلائے کوئی
جب کِیا چاک گریباں تو نہ روکا مجھ کو
اب پھٹا میرا کفن بھی نہ سلائے کوئی
دل میں نفرت ہے لبوں پر ہیں سہانی باتیں
مجھ کو دنیا کے فریبوں سے بچائے کوئی
مجھ پہ جینے کی دعاو ں کا اثر کیا ہو گا
جس سے مر جاو ں دوا ایسی پلائے کوئی
زندگی درد ہے ‘ میں درد کا افسانہ ہوں
جو ہوا ختم بس اب شمع بجھائے کوئی
اب جہاں ہوں میں وہاں سے کوئی رستہ ہی نہیں
میری منزل کا پتہ اب نہ بتائے کوئی
راز رویا تو بہت پیاس نہ آنکھوں کی بجھی
یار کو میرے ذرا ڈھونڈ کے لائے کوئی


غزل

عُذر ہر بار ہو ان کو تو بلائیں کیسے
روز ہم ان کا یہ احسان اٹھائیں کیسے
جو انھوں نے نہ کہی اور جو ہم نے نہ سنی
رہ گئی دل میں ہی جو بات ‘ بنائیں کیسے
اِس نے کھائے ہیں ہمارے لیے کتنے دھوکے
اب یقیں دل کو ہم اس بار دلائیں کیسے
آنکھ ہو جاتی ہے نم آتا ہے جب نام ان کا
ان کی تصویر ہے آنکھوں میں چھپائیں کیسے
چاندنی ہوتی تھی آنگن میں اُنہیں آنکھوں سے
اب دریچوں سے اندھیرے یہ مٹائیں کیسے
ہم نے پہلے ہی جلا ڈالا نشیمن دل کا
راکھ اب لوگ جلائیں تو جلائیں کیسے
ان کے جانے سے مریں گے تو نہیں راز مگر
زندگی ہی نہ رہی جو ‘ وہ بِتائیں کیسے


غزل

اب سرابوں کا اثر صاف نظر آتا ہے
کھو گیا ہے وہ مگر صاف نظر آتا ہے
سوچنے سے وہ نظر آئے ‘ نہ آئے لیکن
بند آنکھیں ہوں اگر ‘ صاف نظر آتا ہے
دھندلے دھندلے کئی چہرے ہیں میری آنکھوں میں
ایک چہرہ وہ مگر صاف نظر آتا ہے
پھر نہ زخمی کوئی ہو جائے نظر سے اس کی
اس کی آنکھوں میں یہ ڈر صاف نظر آتا ہے
کچھ الگ سا ہی وہ دکھتا ہے اُجالوں میں مجھے
میرے خوابوں میں وہ پر صاف نظر آتا ہے
بھولنے کی اسے کرتا ہوں میں جب بھی کوشش
ذہن پر دل کا اثر صاف نظر آتا ہے
راز یادوں کے بھی اب سائے ہیں دھندلے دھندلے
ختم ہوتا یہ سفر صاف نظر آتا ہے


غزل

جہاں میں آج کسی کو کسی سے پیار نہیں
ضرورتوں کی تجارت میں کوئی یار نہیں

کھلے ہیں پھول کچھ اتنے جہاں میں کاغذ کے
بہار کا کسی گلشن کو انتظار نہیں

تھا وہ بھی وقت کہ باتوں پہ تھا یقین ہمیں
اب آنکھ سے بھی جو دیکھا ہے اعتبار نہیں

بتائیں کیا کہ اب حالات پر زمانے کے
یہ لگ رہا ہے خدا کا بھی اختیار نہیں

نہ جان دینا ابھی راز دوستی میں کہیں
ابھی وفاو ں کا ماحول سازگار نہیں


غزل

بات کب عشق کی ہونٹوں سے بیاں ہوتی ہے
عشق ہوتا ہے تو آنکھوں میں زباں ہوتی ہے
بولتے رہتے ہیں جب ‘ کچھ بھی نہیں کہہ پاتے
بات جب بنتی ہے تب بات کہاں ہوتی ہے
اپنی اپنی ہے یہ توفیق کہ گزرے کیسے
یہ مگر سچ ہے کہ ہر رات جواں ہوتی ہے
ہو کے اپنا بھی جو بن جائے پرایا کوئی
پھر بہاروں کے بھی موسم میں خزاں ہوتی ہے
ٹوٹنے سے کسی دل کے جو دعا سی نکلے
کسی بربادِ محبت کی فغاں ہوتی ہے
شمعیں آنکھوں میں ہوں اور یادوں کے شعلے دل میں
رات پھر ہجر کی آہوں میں دھواں ہوتی ہے
نہ ہو طوفان کا ڈر اور نہ ساحل کی طلب
عشق کی راز وہی عمرِ رواں ہوتی ہے


غزل


زندگی کیا یہ زندگی ہو گی
غم نہ ہوں گے تو موت سی ہو گی
درد و غم اپنے چاند تارے ہیں
جب یہ نکھریں گے روشنی ہو گی
یہ جو زنجیریں ہیں امیدوں کی
ان میں الجھے تو بے کسی ہو گی
گردشِ غم بھی ایک نعمت ہے
جب گزر جائے غم ‘ خوشی ہو گی
بے خودی ہی میں وہ ملے شاید
عشق ہو گا تو بے خودی ہو گی
سب کے ہونٹوں پہ آئے گی لیکن
مسکراہٹ نہ ایک سی ہو گی
درد ہوتا ہے آئینہ غم کا
مت دکھا راز دل لگی ہو گی


غزل


تھا تیرے شہر میں شاید نہ پرایا کوئی
میں نے لیکن یہاں اپنا بھی نہ پایا کوئی

اس طرح اشکوں میں ڈھالا ہے تیری یادوں کو
جب میں رویا بھی تو آنسو نہ بہایا کوئی

بزمِ تنہائی میں جلتے رہے یادوں کے چراغ
رات بھر محفلِ ہجراں میں نہ آیا کوئی

ٹیس جب بھی اٹھی سینے میں ‘ دبا دیں آہیں
دل نے پر درد نہ آنکھوں میں چھپایا کوئی

ذہن کو راس کچھ آوارگی آئی ایسی
آشیاں ہی کہیں میں نے نہ بنایا کوئی

راز خالی یوں ہوا دل یہ تیرے جانے سے
میری آنکھوں میں کبھی پھر نہ سمایا کوئی


غزل


نہ بدلے جو کبھی ایسا کوئی موسم نہیں ہوتا
خوشی کا ہو یا غم کا ایک سا عالم نہیں ہوتا

جو ڈوبے جا رہا ہے غم کے طوفاں میں ‘ اسے پوچھو
کسی ساحل کا دِکھ جانا سہارا کم نہیں ہوتا

بھلا اس کا ہو جس نے دل ہمارا توڑ ڈالا تھا
کہ اب ٹکڑوں کے ٹکڑے ہوں تو کوئی غم نہیں ہوتا

ہیں کچھ وہ زخم جن کے واسطے نشتر ضروری ہے
پرانے زخم کا چارا کوئی مرہم نہیں ہوتا

کہو کچھ بھی اسے ‘ الزام بھی اس پر لگے کوئی
جگر ہے راز کا یاروں سے وہ برہم نہیں ہوتا

 


غزل
ایسا ہوا تم بِن من سونا ہم برسوں نہیں سوئے
جب جب بھیگا موسم دل کا نینا پھوٹ کے روئے

خوشیوں کے جب پھول چنے تو پائے اتنے کانٹے
کھول کے دل دکھلایا جس کو اس نے تیر چبھوئے

ٹوٹ گئی ہر ڈالی جس پر ہم نے جھولے ڈالے
زخم چھپا کر بیٹھے ہیں اب دل میں درد سموئے

ڈھونڈ تھکے ہم اس دنیا میں عشق و وفا کے بندے
بھٹک رہے ہیں ‘ اب راہوں میں اپنے آپ میں کھوئے

اتنی چوٹیں کھائیں ہم نے جیون کی راہوں میں
جہاں ملیں دو پیار کی بوندیں ‘ زخم پرانے دھوئے

راز لگی ہیں سو سو گانٹھیں یادوں کے دھاگوں میں
پیار کے سوکھے پھول پھر ان میں کیسے کوئی پروئے


غزل
ڈھل گئی شام ڈھل گئے سائے
رنگ کیا کیا بدل گئے سائے

ساتھ دن بھر تھے شام کو لیکن
مجھ سے آگے نکل گئے سائے

ڈھونڈ کر جب کوئی خوشی لایا
اس کو پل میں نگل گئے سائے

ذہن میں منجمد رہے برسوں
تجھ کو دیکھا پگھل گئے سائے

فائدے کی کہیں جو بات سنی
بھاگ کر سر کے بل گئے سائے

راز اس سائے کو وجود ملا
جس کے سائے میں پل گئے سائے

 

 

غزل
یوں تو ساقی کا میرے کام وہی ہوتا ہے
پر وہ چھلکا دے جسے جام وہی ہوتا ہے

جتنے قصے بھی محبت کے سنو دنیا میں
جو بھی آغاز ہو ‘ انجام وہی ہوتا ہے

عشق کرتے ہو تو پھر غم سے بچو گے کیسے
عشق والوں کا تو انعام وہی ہوتا ہے

دن کے چہرے پہ لگا دیتے ہیں خوش رنگ نقاب
شام ہوتی ہے تو ہر شام وہی ہوتا ہے

جھوٹ غبارے کی مانند تو اُڑتا ہے مگر
سچ جو ہوتا ہے سرِ بام وہی ہوتا ہے

راز تم کچھ بھی کرو ‘ نام نہ پیدا کرنا
نام کرتا ہے جو بدنام وہی ہوتا ہے


غزل


میں تو دو روز یہاں آیا تھا جانے کے لیے
زندگی مل گئی کیوں مجھ کو ستانے کے لیے

چارہ گر زخم میرے دل کے سبھی چھیڑ گیا
وہ جو آیا میرے دکھ درد مٹانے کے لیے

کون اس دنیا میں جی پایا ہے اپنی خاطر
جینا پڑتا ہے یہاں سب کو زمانے کے لیے

جو بھی دکھ دینا ہے دے شوق سے تو مجھ کو ‘ خدا
اس کو کیوں دیتا ہے دکھ مجھ کو رُلانے کے لیے

ہر اذاں سنتے ہی جب خود میں چلا آتا تھا
کیوں میری موت کو بھیجا ہے بلانے کے لیے

خوش ہو اب راز کہ تکلیف کے دن ختم ہوئے
آ گئی موت ہر ایک غم سے چھڑانے کے لیے


غزل


اپنی جنّت سے نکل کر یہ کدھر آئے ہیں
کیسا بے رنگ خرابہ ہے جدھر آئے ہیں

پاس جب بھی گئے سوکھے ہوئے کچھ پھول ملے
دور سے باغ سبھی سبز نظر آئے ہیں

ساتھ کتنے تھے مگر ایک بھی ساتھی نہ بنا
ہم اکیلے تیری دنیا سے گزر آئے ہیں

وہ کہاں بھٹکے تھے دن بھر یہ نہ پوچھو ان سے
شام کے وقت جو خود لوٹ کے گھر آئے ہیں

جب بھی آیا ہمیں اپنے لیے جینے کا خیال
کتنے چہرے ہیں جو آنکھوں میں اُبھر آئے ہیں

راز کیسا یہ سکوں ہم نے قفس میں پایا
اپنے ہاتھوں سے ہی پر اپنے کتر آئے ہیں


غزل


سوچنا تھا ‘ نہ کچھ سمجھنا تھا
عشق کو آسماں پہ چلنا تھا

منجمد ہو گئیں تمنائیں
دل ہی دل میں ہمیں پگھلنا تھا

چند خوشیاں نہ ہم سنبھال سکے
غم میں پھر ہم نے کیا سنبھلنا تھا

کیسے تقدیر مستقل رہتی
دل مسلسل ہمیں بدلنا تھا

شکر رب زمین دی ہم کو
آسماں پہ تو کچھ نہ اُگنا تھا

راز جس دن سنبھالا ہم نے ہوش
بس ‘ اسی دن سے دل مچلنا تھا


غزل


اس کا ہر جام خاص ہوتا ہے
عشق ہر دل کی پیاس ہوتا ہے

دور اس سے نکل بھی جاتا ہوں
وہ مگر میرے پاس ہوتا ہے

جب بھی موقع خوشی کا ہو کوئی
اور بھی دل اداس ہوتا ہے

ہر ہنسی کو نہ جو خوشی سمجھے
بس ‘ وہی غم شناس ہوتا ہے

جس کو دنیا جنون کہتی ہے
میرا ہوش و حواس ہوتا ہے

راز ہے چاک جس کا پیراہن
عزم اس کا لباس ہوتا ہے


غزل


خدا ملے تو یہ پوچھیں کہ ماجرا کیا ہے
بقا کا اور فنا کا یہ سلسلہ کیا ہے

چلا ہے ساتھ وہ خاموش کتنی صدیوں سے
تو آ رہی ہے جو پھر آج وہ صدا کیا ہے

یہ رنگ و بوئے جہاں سب ہے اس کا ‘ مان لیا
دماغ و دل کا الگ پھر جہان سا کیا ہے

پہونچ نہ پائے تیرے در پہ عمر بھر کوئی
قدم قدم پہ ہے ٹھوکر یہ راستہ کیا ہے

سنور گئے بھی ‘ سنوارا بھی ہے زمانے کو
مگر سدھر کے ہمیشہ یہاں رہا کیا ہے

جو مر ہی جائیں نہ اب راز تو کدھر جائیں
جہاں میں جی کے بھی آخر ہمیں ملا کیا ہے


غزل


اپنی اپنی ہے ضرورت بے وفا کوئی نہیں
کون پھینکے کس پہ پتھر بے خطا کوئی نہیں

زہر سے دہشت کے جو لیتا ہے معصوموں کی جاں
دھرم اس کا کچھ نہیں اس کا خدا کوئی نہیں

حالِ دنیا کیا کہیں سہمے ہوئے بیٹھے ہیں سب
سب کو سب معلوم ہے پر بولتا کوئی نہیں

کب ‘ کہاں کس موڑ پر مل جائے غم کس کو خبر
کس خوشی سے غم جُڑا ہے جانتا کوئی نہیں

زندگی جب تک ہے سب اک دوسرے سے ہیں الگ
خاک میں مل کر کسی سے بھی جدا کوئی نہیں

مکڑیوں کو راز جالا بُننا سکھلاتا ہے کون
خود پرستی کے فریبوں سے بچا کوئی نہیں


غزل


یہ کن لوگوں سے اب دنیا بھری ہے
کہ ہر سُو خوف ہے بے چارگی ہے

شجر اخلاص کے اب کیا اُگیں گے
یہاں تو کھاد ہی بارود کی ہے

ہے جب اس سے ہی سب کا آب و دانہ
تو یہ مٹی لہو سے کیوں رنگی ہے

نتیجہ تو ہے بس دہشت کا دہشت
کب اس سے بات کوئی حل ہوئی ہے

اسے ہو امن کی خواہش تو کیسے
جسے دہشت سے روزی مل رہی ہے

ہے دہشت گرد بھی تو راز انساں
تو اس کی سوچ کیوں ایسی بنی ہے؟


غزل


وہ ہم سے پوچھ رہے ہیں ہمیں ہوا کیا ہے
وہی بتائیں کہ ہونے کو بھی بچا کیا ہے
دعائیں مانگتے کاٹی ہے عمر جن کے لیے
وہ کہہ رہے ہیں ‘ تمہیں کیا پتہ وفا کیا ہے
سمجھ رہے ہیں وہ سب کچھ ہماری نظروں سے
تو کیا بتائیں انہیں ہم کہ مدعا کیا ہے
تلاش سب کو جہاں میں خوشی کی ہے لیکن
ملا کسی کو یہاں درد کے سوا کیا ہے
سزائے موت سے ہم کیا ڈریں گے ‘ اے دنیا
جدا ہم ان سے ہیں اس سے بڑی سزا کیا ہے
ضمیر مار کے دنیا میں لوگ جیتے ہیں
تو فرق جینے یا مرنے میں اب بھلا کیا ہے
ہمارا دل وہ جلا کے چلے گئے کب سے
تو اب بھی راز یہ سینے سے اٹھ رہا کیا ہے


غزل

پھر اشکبار یہاں کون دل جلا ہو گا
نہ ہم رہیں گے تو ان محفلوں میں کیا ہو گا

یہ غنچے پھر بھی گلستاں میں مسکرائیں گے
اگرچہ باغ کا مالی گزر گیا ہو گا

نظارے یوں ہی زمانے میں جلوہ گر ہوں گے
بس ایک دیکھنے والا ہی کم ہوا ہو گا

جو ہم نفس ہے ہمارا جو ہم پہ مرتا ہے
ہمیں بھُلا کے کسی دن وہ جی رہا ہو گا

پتہ ہے موت تو آنی ہے اس سے کیا ڈرنا
ہے ڈر تو یہ ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہو گا

تجھے بلایا ہے گر راہِ موت سے اس نے
تو راز سب سے یہ چھوٹا ہی راستہ ہو گا


غزل


جو چاندنی میں نہائے بدن وہ جل کے رہے
خوشی کی حد سے جو گزرے ‘ غموں میں ڈھل کے رہے

یہ سچ ہے موت کو اپنی بلایا خود ہم نے
مگر بچے ہیں کہاں وہ بھی جو سنبھل کے رہے

فلک نے ایسی ڈھلانیں بنا کے رکھی ہیں
جو آسمانوں پہ چلتے تھے وہ پھسل کے رہے

تمام شام کیا ضبط ہم نے کچھ نہ کہا
مگر دبائے تھے جو بول وہ نکل کے رہے

بدل نہ پائے کبھی دوستوں کی فطرت کو
گو دشمنوں کا تو دل راز ہم بدل کے رہے


غزل

محبت جب سے کی اک بے وفا سے
سمجھ لو دشمنی کر لی خدا سے

محبت ہی بچا پائے نہیں جب
تو ہونا ہے جو ہو اپنی بَلا سے

پِلاتے ہیں نگاہوں سے وہ سب کو
ہمیں رہتے ہیں بس پیاسے کے پیاسے

ہمیں جانے کو تو کہتے نہیں وہ
سمجھ جاتے ہیں ہم اُن کی ادا سے

اُنھیں معلوم ہے ‘ ہم کو پتہ ہے
وہ جو دیتے ہیں سب جھوٹے دِلاسے

جُدا ہو کر یہ ہم نے ’راز‘ جانا
وہ جب تھے ساتھ ‘ تب بھی تھے جُدا سے


غزل


کہاں سے کوئی آیا تھا کہاں کوئی گیا ہو گا
فنا ہونے کا کوئی تو مناسب سلسلہ ہو گا
کئی باتیں ہیں جو میں سوچنے دیتا نہیں خود کو
جو دے دوں ذہن کو کچھ ڈھیل ‘ کوئی حادثہ ہو گا
توازن نعمتوں میں اور غموں میں جب کیا ‘ دیکھا
کہ زندہ ہوں ‘ اِسی نعمت سے بڑھ کر اور کیا ہو گا
دُکھی کیسے بھی ہوں پر موت کو سوچو تو لگتا ہے
کہ کیا اِن خوبصورت منظروں کا چھوڑنا ہو گا
سزائیں پچھلے جنموں کی سمجھ کر بھوگتا ہوں میں
مگر ہے یاد بھی کس کو کہ آخر کیا کِیا ہو گا
ادب کی محفلوں میں کتنی شائستہ کلامی ہے
دماغ و دل میں لیکن کیا پتہ کِیا کِیا چھپا ہو گا
یہی بس سوچ کر ہر دن کٹی ہے زندگی ساری
سبھی دُکھ سہہ چکا ہوں ’راز‘ اور اب کیا بچا ہو گا


غزل

تھے ساتھ ساتھ مگر سارے ہم سفر تنہا
قدم ملا کے چلے ‘ دل رہے مگر تنہا

تھیں بے شناس نگاہیں ‘ تھا خشک سا لہجہ
تھے قربتوں میں بھی ہم لوگ کس قدر تنہا

وہ برسوں بعد ملے کوئی اجنبی جیسے
گو آنکھیں چار ہوئیں ‘ پر رہی نظر تنہا

تھا ساتھ رات کے ایک چاند ‘ ستاروں کا ہجوم
اُجالے جس نے کیے رہ گئی سحر تنہا

گھِرا ہوا ہے ہر ایک شخص یوں تو اپنوں سے
ہے اپنے دل میں مگر ’راز‘ ہر بشر تنہا


غزل

کس وجہ سے اس دنیا میں لایا گیا ہوں میں
کیا غم ہی اٹھانےکو بنایا گیا ہوں میں

بچپن میں تو لگا تھا جہاں ہو گا زیرِپا
پر عمر بھر ہنسی میں اُڑایا گیا ہوں میں

آیا ارادتاً تھا ‘ نہ مرضی سے جاو ں گا
ایک اتفاق ہے یہاں پایا گیا ہوں میں

کچھ بھی کروں میں چھُپتی نہیں میری ذہنیت
ظاہر ہے کسی دشت سے لایا گیا ہوں میں

سب مجھ سے پریشان ہیں ‘ میں سب سے پریشاں
پھر کس لیے محفل میں بُلایا گیا ہوں میں

میں نے بھی مسکرانے کی عادت نہیں چھوڑی
گو ’راز‘ بار بار رلایا گیا ہوں میں

 

 

 نظم

1
پتھر

کہیں پڑا ہے ٹھوکر میں اور کہیں بنا بھگوان ہے
واہ رے پتھر ‘ واہ رے پتھر ‘ تیرا کرم مہان ہے
پربت کی ‘ دریا کی اور تو دھرتی کی بھی جان ہے
واہ رے پتھر ‘ واہ رے پتھر ‘ تیرا کرم مہان ہے

روپ رنگ ہے تیرے جتنے نہیں کسی کے اتنے
الگ الگ ہیں شکلیں تیری ‘ تیرے وجود ہیں کتنے
ہیرے کی کھانوں میں تیری عجب انوکھی شان ہے
واہ رے پتھر ‘ واہ رے پتھر ‘ تیرا کرم مہان ہے

سنگ تراشوں سے کھدوا کر تو نے اپنا سینا
دنیا کو سکھلایا تو نے مر کے کیسے جینا
کھجوراہو ‘ ایلورا ‘ اجنتا سے تیری پہچان ہے
واہ رے پتھر ‘ واہ رے پتھر ‘ تیرا کرم مہان ہے

برف کی چادر اوڑھ کے جنمی تیری کوکھ سے ندیاں
جھرنے تیرے تن سے گزرے ‘ گزریں کتنی صدیاں
پھر بھی تو پکّا ہے ایسا جیسے دھرم ایمان ہے
واہ رے پتھر ‘ واہ رے پتھر ‘ تیرا کرم مہان ہے
 

2
یہ کیا ہو رہا ہے

یہ انساں جو خود سے جُداہو رہا ہے
یہ کیوں ہو رہا ہے ‘ یہ کیا ہو رہا ہے

گو نفرت تو پہلے بھی دیکھی تھی ہم نے
مگر اس کی وجہ تو ہوتی تھی کوئی
یہ بے وجہ نفرت ‘ یہ بے وجہ وحشت
یہ ہر سُو جو اتنا بُرا ہو رہا ہے
یہ کیوں ہو رہا ہے ‘ یہ کیا ہو رہا ہے

نہیں جن کا کچھ لینا دینا کسی سے
بھلا اُن سے یہ دشمنی ہے تو کیسی
یہ دہشت کا آخر نشانہ کدھر ہے
بھلا ہے تو کس کا بھلا ہو رہا ہے
یہ کیوں ہو رہا ہے ‘ یہ کیا ہو رہا ہے

یہ کٹھ پُتلیوں کو نچایا ہے کس نے
یہ معصومیت کو جلایا ہے کس نے
کہاں سے ہے آیا یہ جذبہ  دہشت
جو ہر دن نیا حادثہ ہو رہا ہے
یہ کیوں ہو رہا ہے ‘ یہ کیا ہو رہا ہے

دعائیں کرو ختم ہو اب سیاست
کریں ختم انساں سے انساں کی نفرت
چلو پھر جگا لیں دلوں میں محبت
یہ دل کس قدر بے صدا ہو رہا ہے
یہ کیوں ہو رہا ہے ‘ یہ کیا ہو رہا ہے

قطعات
قطعہ
وہ کہتے ہیں کہ جیسے تم تھے کیوں اب تم نہیں لگتے
بتائیں کیا کہ اب خود کو بھی ہم تو ہم نہیں لگتے
ذرا سی بات ہوتی تھی غموں میں ڈوب جاتے تھے
نہ جانے کیا ہوا اب غم بھی ہم کو غم نہیں لگتے
 

قطعہ


وقت ہر شخص پہ آتا ہے گزر جاتا ہے
سب سنور جاتا ہے پر شخص بکھر جاتا ہے
وقت کے ساتھ ہی چلنا ہے مناسب لیکن
وقت پڑنے پہ نہ جانے یہ کدھر جاتا ہے


قطعہ
زندگی میں کہیں کمی سی ہے
چال دل کی تھمی تھمی سی ہے
کب سے خالی مکان ہے دل کا
دھول یادوں کی کچھ جمی سی ہے

قطعہ

جو خدا ہے تو مذاہب کی ضرورت کیا ہے
اس سے بڑھ کر کوئی دنیا میں حقیقت کیا ہے
ذات انسان کی بانٹو نہیں دنیا والو
راز سمجھو ذرا انسان کی قیمت کیا ہے
 

قطعہ
دور اتنا ہو گیا ہوں خود سے میں
خود مجھے اپنی خبر ملتی نہیں
سوچتا رہتا ہوں میں صدیوں کی بات
زندگی سے پر نظر ملتی نہیں
 

قطعہ
درد و رنج و الم کی ماری ہے
ہاں ‘ یہی زندگی ہماری ہے
میکدے ہی میں اب تو رہتے ہیں
راز کیا زندگی سنواری ہے

قطعہ

عشق سو بار مر مر کے زندہ ہوا
عشق جو کر گیا ‘ کوئی کر نہ سکا
وقت نے ہی کیا قتل بھی عشق کو
اور پھر وقت ہی چارہ گر بن گیا
 

قطعہ
دنیا کو میں نے اپنے گنہ کی صفائی دی
تھوڑا سا جھوٹ بول کے سچ کی دُہائی دی
پر دل کے فیصلے میں تو میرے ضمیر کو
میرے خلاف صاف گواہی سنائی دی
 

قطعہ
کسی پہ مر کے ہی جینا ہے تو پھر شوق سے مر لو
زمانے بھر کے جتنے جھوٹ ہیں دامن میں سب بھر لو
اگر کہتا ہے کوئی پیار کرتا ہے وہ بس تم سے
تو مت پوچھو کہ کیوں ‘ بس مان لو ‘ اور دل کو خوش کر لو

قطعہ
چھو کے آتی ہےں وہ کرنیں جو تیری آنکھوں کو
چاند کی میں اُنہیں کرنوں کو چوم لیتا ہوں
تیری آواز میں جب نغمے نہیں سن پاتا
پی کے مے تیرے خیالوں میں جھوم لیتا ہوں


قطعہ
کیا یہ دنیا ہے اور اب اس کی کہانی کیا ہے
یہ زمیں ‘ آگ ‘ ہوا اور یہ پانی کیا ہے
اس کہانی کا نہ آغاز نہ تو اَنت کہیں
جب ادھوری ہے کہانی تو سنانی کیا ہے



متفرق اشعار
1
نفرت کی آگ چاہے جلا دے میری زمین
انسانیت کے بیج ہی بوتا رہوں گا میں
 

2
جگنو کی زندگانی بس ایک رات ہی سہی
لیکن تمام عمر چمک کر جِیا تو ہے
 

3
الفاظ میں ڈھل جاتی ہے جب کوئی غزل تو
میں سوچتا رہ جاتا ہوں یہ کس نے کہی ہے
 

4
شجر کانٹوں کا ‘ ڈالی پھول کی ‘ پتّے ہواو ں کے
یہ مٹّی بھی ہے کیڑوں کی ‘ چمن لیکن ہمارا ہے
 

5
ہاتھی ‘ کبھی گھوڑا ‘ کبھی پکشی نظر آیا
میں اُڑتے ہوئے بادلوں کو دیکھ رہا تھا
 

6
نہیں دوں گا وہ جس کو مانگنا پڑ جائے گا واپس
وہی دوں گا ‘ میں دے کر ’راز‘ جس کو بھول سکتا ہوں
 

شاعری پڑھنے کے لیے مجموعے کا انتخاب کریں

Back to Urdu Main Page

 

Urdu Poetry , Urdu Ghazal, Urdu Nazm, Urdu Qit-aa, Urdu Sher o Shairy by Razdan Raaz from Mumbai/Bombay India.

All right reserved          Developed by Webco India

drupal stats